چائلڈ لیبر پر کام کرتی ہوئی راستی تنظیم…………..تحریر:راجہ افتخار احمد
آج بروز جمعہ نجی ریسٹورنٹ تلہ گنگ روڈ چکوال پر پاکستان کے مختلف اضلاع میں چائلڈ لیبر پر کام کرنے والی راستی تنظیم نے ایک سیمنار منعقد کیا جس میں چکوال پریس کلب کے عہدیداران و ممبرانِ نے زیر قیادت چیئرمین خواجہ بابر سلیم محمود بڑی تعداد میں شرکت کی
اس آگاہی سیمنار میں پاکستان میں چھوٹے بچوں سے مشقت لیے جانے اور بچوں کے حقوق کی پامالی پر صحافتی وفد سے سحر حاصل گفتگو کی گئی
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے پراجیکٹ مینیجر راستی عاطف عباس اور ایڈووکیسی نیٹ ورکنگ آفیسر محترمہ مریم عذرم نے راستی تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہماری تنظیم راستی 1995 میں قائم ہوئی اور اس کا مقصد بچوں کے حقوق کو بچوں کے ہی ذریعے اس طرح فروغ دینا کہ انکی استعداد کار میں اضافے کے ساتھ ساتھ انکی آواز پالیسی ساز اداروں تک پہنچانا ہے راستی اس وقت ملک کے پانچ شہریوں میں چائلڈ لیبر پر کام کر رہی ہے جس میں ضلع چکوال بھی شامل ہے راستی پاکستان کا خواب ہے کہ پاکستان کے کونے کونے میں ان ننھے منھے بچوں کی آواز کو سنا جا سکے تاکہ بچوں کے حقوق کی آگاہی اور پاسداری ممکن ہو سکے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری تنظیم کا مقصد ریاستی نمائندوں سے رابطہ میں رہ کر انہیں ملک میں موجود چھوٹے بچوں پر ہونے والے ظلم ستم اور جبری مشقت لیے جانے کے بارے میں وقتاً فوقتاً آگاہ کرنا ہے تاکہ حقوق لینے والوں اور ریاست کے نمائندوں کے درمیان فاصلہ ختم ہو سکے
پروجیکٹ مینیجر عاطف عباس کا مزید کہنا تھا بچوں کے حقوق کی آواز کو اپنا اخلاقی سماجی معاشرتی آئینی اور مذہبی زمہ داری سمجھتے ہوئے فرض ادا کر رہے ہیں راستی پاکستان KNH اور BMZ کے تعاون سے جاری پروجیکٹ میں تمام میڈیا نمائندگان سے ملکر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے بنائی جانی والی پالیسیوں میں بچوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے انکی آواز کو سنا جائے دوسرا مطالبہ یہ کہ گیارہ خطرناک شعبوں پر پابندی لگائی جائے جن کی وجہ سے یہ تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں چائلڈ لیبر پر بنے قوانین کو یکجا کرکے ایک یونیفارم لا بنایا جائے جو تمام پہلوؤں کا احاطہ کریں.تنظیم کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے بعد سیمنار میں موجود سینئر صحافیوں کے سوالات کے جوابات بڑی تفصیل اور مدبرانہ طریقے سے دیے گئےصحافی و کالم نگار راجہ افتخار احمد نے سوال کیا کہ اس وقت ملک بھر میں سینکڑوں این جی اوز اور بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کی تنظیمی کام کر رہی ہیں مگر اس کے ثمرات معاشرے کے پسے اور زندگی کی سہولیات سے محروم بچوں کی بہتری پر نہیں پڑھ رہے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ این جی اوز اور تنظیمی بیرون ممالک سے بڑے پیمانے پر فنڈنگ لیتی ہوئی پائی جاتی ہے جس کے جواب میں ایڈووکیسی نیٹ ورکنگ آفیسر محترمہ مریم عذرم کا کہنا تھا کہ ہمارا بنیادی مقصد ریاست کے ان دروازوں پر دستک دینا ہے جن کے زمے بچوں اور اپنے شہریوں کو سہولیات دینا اور چھوٹے بچوں کے حقوق کو تحفظ دینا ہے ہم خود ڈائریکٹلی کسی بھی بچے یا گھرانے کی مالی امداد نہیں کرتے اور نہ ہی اتنے وسیع پیمانے پر یہ ہمارے لیے ممکن ہے کیونکہ ہم محدود وسائل کے ساتھ خدمت خلق کے مشن اور عظیم جزبے کو لے کر یہ کام کر رہے ہیں
راقم یہ سمجھتا ہے کہ محترمہ مریم عذرم کا جواب اور موقف بالکل ٹھیک ہے کیونکہ
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئین کا آرٹیکل 25 بڑا واضح کرتا ہے کہ 5 سال سے16 سال کی عمر تک بچوں کی تعلیم و تربیت ریاست کی ذمہ داری ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ریاست اپنی زمہ داریوں سے روپوش ہو چکی ہے اور ریاستی اداروں کی لمبی تان کر سونے کی وجہ سے آج گلی محلوں ورکشاپس بھٹہ جات اور فیکٹریوں میں کم عمر بچے مشقت کرتے نظر آتے ہیں بلکہ نہ صرف مشقت کرتے بلکہ مشقت کے دوران انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے منصفوں کے گھروں میں ان معصوموں پر ظلم و تشدد بھی ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو کہ ایک لحمہ فکریہ ہے
حضرت علامہ اقبال کا فرمان ہے کہ
جو لوگ بچوں کی تعلیم و تربیت کے صحیح اور علمی اصول کو مدنظر نہیں رکھتے اور وہ اپنی نادانی سے سوسائٹی کے حقوق پر ایک ظالمانہ دست اندازی کرتے ہیں جس کا نتیجہ سوسائٹی کے تمام افراد کے لیے بڑا بھیانک ہوتا ہے
آخر میں سیمنار کے شرکاء نے راستی تنظیم کی ان کوششوں کو سراہا اور پراجیکٹ مینیجر عاطف عباس اور محترمہ مریم عذرم کو خراج تحسین پیش کیا کہ جس طرح ملک بھر میں وہ خود جا کر وہاں پر مشقت کرنے والے بچوں کو ٹریس آؤٹ کرریے ہیں اور پھر سول سوسائٹی متعلقہ ریاستی اداروں کے علم میں تمام تر حقائق کو لانا اور بچوں کے حقوق کے لیے مختلف اداروں جس میں صحافتی شخصیات سول سوسائٹی پارلیمنٹرین اور دیگر ادارے شامل ہیں ان سے ملکر کوششیں کرنا قابل تحسین ہے
ندا فاضلی کے خوبصورت شعر کے ساتھ دعا گو ہیں کہ راستی تنظیم کی طرح دیگر تنظمیوں اداروں اور مخیر حضرات کو اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کرتے ہوئے گلشن کے ننھے منھے پھولوں کی دیکھ بھال کرنے اور انہیں معاشرے کا کار آمد شہری بنانے میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہنا چاہیے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہمارے جیسے ہو جائیں گے