عوام اور دکاندار 75روپے کے یادگاری نوٹ قبول کرنے سے خوفزدہ
کراچی(بیورورپورٹ)مرکزی بینک کی جانب سے پاکستان اور مرکزی بینک کی ڈائمنڈ جوبلی کے مختلف مواقع پر مختلف ڈیزائنوں کے حامل 75 روپے کے دو یادگاری کرنسی نوٹ جاری کیے گئے جو کہ ہر لحاظ سے بطور کرنسی استعمال کیے جانے کے قابل ہیں، لیکن عوام الناس میں اس حوالے سے کنفیوژن اور غلط فہمی پائی جاتی ہے اور اکثر دکاندار ان نوٹوں کو وصول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق مرکزی بینک نے پہلا نوٹ ہرے رنگ میں 14اگست 2022 کو پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی پر جاری کیا تھا، جس پر قائد اعظم کے ساتھ سرسید احمد خان، فاطمہ جناح اورعلامہ اقبال کی تصاویر بھی چھاپی گئی تھیں۔دوسری بار نیلے رنگ والے75 روپے کے نوٹ مرکزی بینک کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر 4 جو لائی 2023 کو جاری کیے گئے تھے، جن پر صرف قائد اعظم کی تصویر چھاپی گئی تھی، محدود تعداد میں اور صرف ایک بار چھاپے جانے کی وجہ سے ان یادگاری نوٹوں کی وجہ سے عوام الناس میں غلط فہمی پھیل گئی اور دکانداروں نے ان نوٹوں کے لین دین سے انکار کر دیا۔اس حوالے سے مرکزی بینک کے ترجمان عابد قمر نے کہا کہ مرکزی بینک کا یہ نوٹ بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ نوٹ بطور کرنسی ہر طرح سے قانونی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم عوام الناس اور تاجروں کے درمیان اس حوالے سے آگاہی پھیلا رہے ہیں۔ایک سینیئر بینکر کا کہنا ہے کہ یادگاری نوٹ بڑے پیمانے پر جاری کیے گئے تاکہ زیادہ لوگوں تک پہنچیں اور زیادہ لوگ ان نوٹوں کو حاصل کرکے یادگار منا سکیں۔اس حوالے سے دکانداروں کا کہنا تھا کہ سپلائی چین میں کوئی بھی ان نوٹوں کو قبول نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے ہم یہ نوٹ قبول نہیں کرتے۔سبزی اور پھل فروشوں کا کہنا تھا کہ مارکیٹوں میں ان یادگاری نوٹوں کو ہول سیلر قبول نہیں کرتے جبکہ ایک ریڑھی بان کا کہنا تھا کہ کم تعداد میں نوٹوں کی چھپائی تنازعے کی بڑی وجہ ہے، اگر یہ نوٹ بڑی تعداد میں چھاپے جائیں تو لوگوں میں ان کی قبولیت بڑھ جائے گی۔ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ نوٹ کی قدر 75 روپے رکھنا بڑی وجہ ہے، اگر قدر 70 روپے رکھی جاتی تو بہتر رہتا۔ ایک شخص نے کہا کہ پولیس کو دکانداروں اور عوام کو یہ نوٹ قبول کرنے کے لیے حرکت میں آنا چاہیے۔کچھ دکانداروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے بینکوں اور پیٹرول پمپس کی جانب سے نوٹ وصول کرنے کی یقین دہانی کے بعد ان نوٹوں کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔