سپریم کورٹ کا الیکشن کی تاریخ دینے سے قبل صدر سے مشاورت نہ کرنے پر اظہار برہمی
اسلام آباد(بیورورپورٹ) 90 روز میں انتخابات کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تاریخ دینے سے قبل صدر مملکت سے مشاورت نہ کرنے پر اظہار برہمی کیا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔دوران سماعت، پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں اور استدعا یہی ہے کہ الیکشن آئین کے مطابق ہی وقت پر ہونے چاہیے۔عدالت نے پیپلزپارٹی کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت بھی دی۔وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگئی نا قانون بنیں گے، انتخابات کی تارہخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے اور صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90دن کے اندر کی الیکشن تاریخ دے گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ تاریخ دینے کے لیے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ضروری نہیں ہے صدر کا اپنا آئینی فریضہ ہے وہ تاریخ دے۔جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی ہے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں صدر نے تاریخ دیدی ہے لیکن الیکشن کمیشن نے کہا یہ صدر کا اختیار نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے، جس پر وکیل علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی 9اگست کو تحلیل ہوئی اس ہر تو کسی کا اعتراض نہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ جی کسی کا اعتراض نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کیلئے ہم سے رجوع کیا، جس پر وکیل نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہےچیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیے کہ پھر آپ خط ہمارے سامنے کیسے پڑھ رہے ہیں، صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے، صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں، علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کہا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے، پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے۔ اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، چیف جسٹسجسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں حکومت، الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے اور انتخابات تو وقت پر ہونے چاہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ علی ظفر صاحب کیا آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آپ صدر کو ایک فون کر کے کیوں نہیں کہتے کے تاریخ دیں۔
علی ظفر نے کہا کہ وہ صدر پاکستان ہیں پورے ملک کے صدر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے ان کے خلاف کارروائی چاہ رہے ہیں، صدر اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہہ رہے جاو عدالت سے رائے لے لو اور صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد تاریخ دینا ان کا اختیار ہے، آپ نے یہ ترمیم چیلنج کیوں نہیں کی؟ علی ظفر نے کہا کہ مجھے یہ چیلنج کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں سیکشن 57 کو آرٹیکل 58 کے ساتھ ہی پڑھا جائے گا، پھر الیکشن کمیشن ٹھیک کہہ رہا ہے کے صدر سے مشاورت کی ضرورت نہیں وہ تاریخ دے دیں، صدر کو تاریخ دے دینی چاہیے پھر الیکشن کمیشن جو بھی کہتا رہے۔علی ظفر نے کہا کہ میرے خیال میں صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے ہی تاریخ دینی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن مشاورت میں نہیں آیا تو تاریخ دے دینی چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس حد تک میں اتفاق کرتا ہوں کہ صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے ہی تاریخ دینی چاہیے۔ حکومت، الیکشن کمیشن یا صدر جس نے خلاف ورزی کی ان کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں اس سے تو صدر مملکت پر آرٹیکل 6لگ جائے گا۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کرے گا اور آئینی بحث میں پڑے بغیر صدر سے مشاورت پر آمادہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر جواب دے نا دیں آپ نے دستک ضرور دینا ہے۔چیف جسٹس نے آج ہی صدر مملکت سے مشاورت کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل مشاورت میں ان بورڈ رہیں۔