سائفر کیس میں صدر مملکت کو خصوصی عدالت طلب کرنے کی درخواست مسترد
راولپنڈی(بیورورپورٹ)خصوصی عدالت نے بتایا ہے کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اڈیالہ جیل میں جاری سائفر کیس کا ٹرائل نئی ترامیم کے تحت نہیں بلکہ سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت کیا جارہا ہے۔اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت ہوئی۔ سابق چیئرمین پی ٹی آئی ،شاہ محمود قریشی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔وعدے کے باوجود میڈیا کو سماعت کور کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔شاہ محمود قریشی نے جج سے سوال کیا کہ بتایا جائے ہمارا کون سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 یا 2023 کے تحت ٹرائل ہو رہا ہے، ہماری اس قانون کے تحت ٹرائل کی کوشش کی جارہی ہے جس کا نا سر ہے نا پاؤں، نئے ایکٹ سے صدر مملکت بھی انکاری ہیں۔شاہ محمود قریشی نے صدر پاکستان کو عدالت طلب کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ صدر پاکستان کو عدالت بلا کر حلف لیا جائے نئے ایکٹ کی انہوں نے منظوری دی ہے یا نہیں، عمران خان کو نہیں تو کم از کم میرا کیس جیل سے باہر عدالت میں سنا جائے۔عدالت نے شاہ محمود سے کہا کہ آپ اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل الگ نہیں ہو سکتا یہ کیس انٹر لنک ہے۔عدالت نے ان سے کہا کہ آپ کا اعتراض ختم ہوگیا آج عدالت میں پبلک اور صحافی موجود ہیں، آپ کا ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کی سیکشن پانچ اور 9 کے تحت ہوگا۔وکلاء نے ’’نامعلوم پبلک‘‘ کی موجودگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرنا چاہا تو جج نے انہیں بولنے سے روک دیا۔چئیرمین پی ٹی آئی نے بیان دیا کہ میں نے بطور وزیر اعظم اس معاملہ کی انکوائری کا حکم دیا، اس میں شامل افراد طاقتور ہیں انہیں بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، اللہ کے سوا مجھے کسی کا ڈر نہیں، ہمیں بکریوں کی طرح بند کر دیا گیا جبکہ نواز شریف کو وہاں سے یہاں لے آئے۔جج ابولحسنات ذوالقرنین نے صرف ملزمان کی حاضری لگا کر کیس کی سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کردی۔ آئندہ سماعت پر ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کی جائیں گی۔سماعت کے بعد پی ٹی آئی وکلا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیرمین پی ٹی آئی نے دو بار ٹرائل کے بائیکاٹ کا عندیہ دیا اور فیئر ٹرائل نا ہونے پر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا، میڈیا کے 50 سے زائد لوگ جیل کے باہر ہیں،صرف 3 لوگوں کو کارروائی دیکھنے کی اجازت ملی، جبکہ پبلک کے نام پر دس قیدیوں کو بھی سماعت کے دوران بٹھایا گیا، پبلک والے پلانٹڈ لوگ تھے، آج کی کارروائی کسی طرح سے اوپن ٹرائل نہیں تھی بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کی خلاف ورزی تھی۔