(محمد اسماعیل)اسرائیل کے ہاتھوں تبلیغ اسلام

سیہونی فوج جس کا اپنے مذہب پر بھی بھروسا اور ایمان نہیں ہے، جو بذات خود بھی صرف نام کی یہودی ہے،جسے یہودی بھی یہودی نہیں بلکہ کسی اور مذہب کا بتاتے ہیں وہ آج اسلام کو دنیا کے مختلف کونوں اور غیر مسلموں تک پہنچا رہی ہے۔ سیہونیوں نے غزہ پر اعلان جنگ کے بعد ہر ممکن طریقے سے اسلام اور فلسطین کے لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور اسلام اور انسانیت کے خلاف نفرت کی داستان رقمکرنا شروع کی، سیہونی شروع سے ہی اسلام کو دہشت گرد مذہب ثابت کرنے میں سر تھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ لیکن عالم انسانیت نے دیکھ لیا ہے اور پہچان لیا ہے کہ اسلام امن و محبت و سلامتی کا مذہب ہے۔
عزیزان وطن! غزہ جنگ کے آغاز کے بعد یہ بات مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس، اور مختلف خبر رساں اداروں نے بتائی ہے کہ لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ امریکہ میں غیرمسلم نوجوان تیزی سے اسلام کے متعلق پڑھ رہے ہیں اور اسلام کے نور سے منور ہو رہے ہیں،اس میں ایک بات جو قابل ذکر اور قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا کو ہی نہیں مانتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ خدا موجود ہی نہیں ہے وہ بھی اب اسلام سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ سہونیوں اور اسلام دشمن عناصت کی شیطانی چالیں خود ان کو تبا کر رہی ہیں۔
ارباب اہل علم و دانش! یہاں آپ کے ذہنوں میں یہ سوال تو آیا ہو گا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ لوگ دائرہ اسلام میں تیزی سے داخل ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ غزہ کے باشندوں کا پروردگار دو عالم پر ایمان ہے۔ عالم کفر، ظلم کی چکی میں پستے مسلمانوں کا توکل دیکھ کر دنگ رہ گیا ہے۔ ایک غیر مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک فلسطینی ماں کواپنا شہید بچہ گود میں اٹھائے دیکھا جو اس وقت بھی کہہ رہی تھی الحمداللہ اور بے شک ہم تمہاری طرف سے آئے اور تمہاری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ بہادر ماں کے ان الفاظ نے اس غیر مسلم خاتون کو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن کر دیااور وہ جاننا چاہتی تھی کہ ان کے اس مظبوط ایمان کا راز کیا ہے۔ اور اسی جواب کے تلاش میں جب اس نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو اسے یوں لگا جیسے خدا اس سے براہ راست کلام کر رہا ہے۔ امریکہ کے کئی طلباء و طالبات نے قرآن کو پڑھنا شروع کر دیا ہے تا کہ وہ بھی وہ راز جان سکیں جس کی دنیا متلاشی ہے۔ ایسی کئی مثالیں اس وقت موجود ہیں جو غزہ کے باسیوں کے ایمان کی مضبوطی عیاں کرتی ہے، جیسا کہ جنگ کے آغاز ہی میں اسرائیلیوں کا ہوائی اڈے پر پہنچا تا کہ ملک سے بھاک سکیں جبکہ غزہ کا بچہ بچہ اپنی سرزمین پر موجود ہیں۔ مسلسل بمباری سہنے کے بعد بھی غزہ کے بچوں کی مسکراہٹ کفر کی بار کا اور اسلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکہ میں موجود ایک ملحہ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ بھی قرآن پڑھے تا کہ جان سکے کہ غزہ کے لوگ جسمانی اور اعصابی طور پر اتنے مظبوط کیسے ہیں۔
ات مسلم ملت! یہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ عالم کفر ہم سے زیادہ انسانیت کے ناطے غزہ کے لوگوں کیلیت سڑکوں پر آتا ہے اور غزہ کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم توحید کا اقرار کرنے کے باجود ان کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ وہ اکیلے کھڑے ہیں اور مدد خدا کے منتظر ہیں اورخدا کے لوگوں کی راہ تک رہے ہیں اور ہم عجب ہیں کہ معاشی طور پر بھی ان کی مدد نہیں کر رہے کیونکہ ہمیں اسرائیل کی حامی کمپنیوں کی عادت ہے۔
جاگ جائیے!وہ وہاں پر القدس کی حفاظت کر رہے ہیں، بیت المقدس کی ہمارے قبلہ اول کی بھاگنے کا راستہ رو ان کے پاس بھی ہے لیکن وہ ہماری طرح بزدل اور بے حس نہیں ہیں۔ بلکہ وہ غیرت مند ہیں اور اپنی سرزمین کو اپنی عزت سمجھتے ہیں اور کوئی غیرت مند شخص اپنی عزت پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ کیا ہم مسلمان ایک جسم نہیں ہیں؟ کیاالمقدس ہماری عزت نہیں؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہم جدوجہد کیوں نہیں کر رہے؟
آئیے آج سے ایک عہد کرتے ہیں کہ تمام ممکن طریقوں سے ہم اسرائیل کے خلاف محاذ میں کھڑے ہوں گے اور ہر ممکن طریقے سے فلسطین کی حفاظت کریں گے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept