پاکستان میں کینو کی قدرتی مزاحمت ختم، پیداوار میں شدید کمی
کراچی(بیورورپورٹ) کینو کے معیار کے مسائل کی وجہ سے پاکستان سے کینو کی 22کروڑ ڈالر کی ایکسپورٹ خطرے میں پڑ گئی، پانچ ماہ کا سیزن ڈیڑھ ماہ تک محدود رہا جس کے باعث 50 فیصد پراسیسنگ فیکٹریاں بند ہوگئیں۔ایکسپورٹ آرڈرز میں نمایاں کمی کا سامنا ہے، کینو کی صنعت سے وابستہ چار لاکھ افراد کا روزگار اور کینو پراسیسنگ فیکٹریوں میں کی گئی 300ارب روپے کی سرمایہ کاری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا۔پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد نے پاکستان سے کینو کی ایکسپورٹ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی سطح پر کینو کی صنعت کے تحفظ اور بحالی کے لیے ہنگامی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان چند سال قبل تک ساڑھے چار لاکھ ٹن کینو کی ایکسپورٹ سے 22کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کر رہا تھا تاہم اس سال یہ حجم ڈیڑھ سے پونے دو لاکھ ٹن تک محدود رہنے کا امکان ہے جس سے بمشکل 10کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔
پاکستان میں وسطی پنجاب کے علاقے سرگودھا اور بھلوال اپنے خوش ذائقہ اور رسیلے ترش پھل کینو کی پیداوار کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے کینو کے باغات اس علاقے کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں کینو کی فارمنگ سے لے کر پراسیسنگ اور پیکنگ تک کے مراحل سے 4لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے اور 200 کے لگ بھگ ایکسپورٹ فیکٹریوں میں 300ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔پاکستان میں کینو کی موجودہ ورائٹی 60سال قبل متعارف کرائی گئی اور وقت کے لحاظ سے یہ ورائٹی بیماریوں کے خلاف اپنی قدرتی مزاحمت کھو بیٹھی، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے کینو کی ورائٹی کو مزید کمزور کر دیا جس کا نتیجہ پیداوار میں نمایاں کمی بالخصوص معیار کی خرابی کی شکل میں نکل رہا ہے۔پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن گزشتہ چھ سال سے پنجاب حکومت اور وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور متعلقہ زرعی تحقیق کے اداروں کی توجہ کینو کی پیداوار کو لاحق ان خدشات سے آگاہ کرتی رہی ہے تاہم حکومتی توجہ نہ ملنے کی وجہ سے اب کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کماکر دینے والی یہ صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور آئندہ دو سال میں پاکستان سے کینو کی ایکسپورٹ مکمل طور پر بند ہونے کا خدشہ ہے۔پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق کینو کی موجودہ ورائٹی اپنی عمر کافی عرصہ پہلے پوری کرچکی ہے اور نئی ورائٹیز تیار نہ کیے جانے کی بناء پر پاکستان کے پاس ترش پھلوں کی ایکسپورٹ میں اپنا مقام برقرار رکھنے کے لیے کوئی راستہ نہیں بچا۔
وحید احمد نے کہا کہ پی ایف وی اے کئی سال سے پنجاب اور وفاقی حکومت کو آگاہ کرتی رہی ہے کہ کینو کی نئی ورائٹیز متعارف نہ کرائی گئیں تو انڈسٹری ختم ہوجائے گی، لاکھوں لوگوں کا روزگار اور کروڑوں روپے کا زرمبادلہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ سیزن کے آغاز پر ہی 200میں سے نصف کے لگ بھگ کینو پراسیسنگ فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ اس سال کینو کی ایکسپورٹ ڈیڑھ سے پونے دو لاکھ ٹن تک محدود رہنے کا امکان ہے جس سے بمشکل 10کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔وحید احمد نے کہا کہ عموماً کسی بھی پھل کی ورائٹی 25 سال میں اپنی عمر پوری کرلیتی ہے جس کے بعد اس ورائٹی کی جدید قسم متعارف کرانا پڑتی ہے۔ پاکستان میں کینو کی ورائٹی 60سال قبل متعارف کرائی گئی اور اس کی عمر پوری ہونے کے باوجود نئی ورائیٹیز پر توجہ نہیں دی گئی۔کینو کے باغات بیماریوں کا گڑھ بن چکے ہیں، کینو کی ظاہری شکل بھی خراب ہوچکی ہے جس کی جلد پر داغ دھبوں کی وجہ سے ایکسپورٹ کے قابل نہیں دوسری جانب کینو کی شیلف لائف بھی کم ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سال سے ایکسپورٹ کی کنسائمنٹس مسترد ہو رہی ہیں اور بڑی مقدار میں کینو خراب حالت میں ایکسپورٹ مارکیٹ تک پہنچ رہا ہے جس سے ایکسپورٹرز اور امپورٹرز دونوں کو بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔وحید احمد نے کہا کہ اب فوری طور پر ترش پھلوں کی نئی ورائٹیز پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن میں ارلی، مڈل اور لیٹ ورائٹیز شامل ہیں۔ مینڈرین (کینو) کے ساتھ لیمن اور اورنج کی نئی ورائٹیز کو آج متعارف کرایا جائے تو پیداوار حاصل ہونے میں پانچ سال لگیں گے اور روایتی علاقوں سے ہٹ کر ترش پھلوں کے فارم لگانا پڑیں گے تاکہ انہیں موجودہ علاقوں میں پھیلی ترش پھلوں کی بیماریوں سے بچایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ نئی ورائٹیز موسمیاتی تبدیلیوں کیا اثرات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہونے کی بناء پر زیادہ موزوں ہوں گی۔ نئی ورائٹیز کاشت کیے جانے سے پانچ سال بعد ترش پھل کی ایکسپورٹ 30لاکھ ڈالر تک بڑھائی جاسکے گی اور آئندہ دس سال تک بتدریج اضافہ سے فریش ترش پھلوں اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی ایکسپورٹ سے ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا جاسکے گا۔وحید احمد نے کہا کہ پاکستانی کینو کی شیلف لائف نہ ہونے اور معیار کے مسائل کی وجہ سے اس سال ایکسپورٹ کے آرڈر نہیں مل رہے، متعدد خریدار ممالک نے آگاہ کیا ہے کہ وہ اس سال پاکستان سے کینو نہیں امپورٹ کریں گے۔ رواں سیزن 15نومبر سے ایکسپورٹ کا آغاز کیا گیا تاہم سیزن کے عروج کے وقت ایکسپورٹ کے آرڈرز نہ ہونے کی وجہ سے کینو کی پراسیسنگ فیکٹریاں بند پڑی ہیں اور ایکسپورٹرز اپنی فیکٹریاں مستقل بند کرکے یہ شعبہ ترک کرنے پر غور کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے کینو کی روایتی منڈیاں روس، فلپائن، انڈونیشیا، برطانیہ اور کینیڈا کی مارکیٹ سے بہت کم آرڈر موصول ہوئے ہیں۔ شیلف لائف کم ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کینو زمینی راستے سے وسط ایشیائی ریاستوں کو ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے جن میں تاجکستان اور قازقستان سرفہرست ہیں لیکن بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ کی وجہ سے ان منڈیوں میں طلب و رسد کا توازن بگڑ چکا ہے۔ ان ملکوں کے خریدار بھی اب مزید خریداری نہیں کر رہے اور ایکسپورٹ کرنے والوں کو ان منڈیوں میں بھی 10کلو کینو کے باکس پر تین سے چار ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔وحید احمد نے کہا کہ پی ایف وی اے حکومت کو اس خطرے سے کئی سال سے آگاہ کرتی رہی لیکن پنجاب حکومت یا وفاق کی سطح پر نئی ورائٹیز کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اسی طرح سٹرس ریسرچ سینٹر بھی اس صنعت کی بقاء کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھا سکا۔ نگراں حکومت نے پنجاب اور وفاق کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاہم ان کمیٹیوں کے اجلاس بھی صورتحال پر غور و فکر اور تجاویز مرتب کرنے سے آگے کچھ نہ کرسکیں۔ کینو کے ایکسپورٹرز اور کاشتکاروں نے پنجاب کے نگراں وزیر ایس ایم تنویر سے متعدد ملاقاتیں کیں جن میں کینو کی انڈسٹری کی بقاء اور بحالی کے لیے منصوبہ بندی پر اتفاق کیا گیا تاہم اب تک کوئی پلان نہیں بن سکا۔پی ایف وی اے نے پنجاب اور وفاق کی سطح پر بننے والی کمیٹیوں میں اپنی تجاویز دہرائی ہیں کہ فوری طور پر ترش پھلوں کی نئی ورائٹیز متعارف کرائی جائیں، نئی ورائٹیز کے لیے نرسریاں بنائی جائیں اور ان نرسریوں کو قانونی تحفظ دے کر ریگولیٹ کیا جائے تاکہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھنے والی بیماریوں سے پاک نئی ورائٹیز تیار کی جا سکیں۔ ترش پھلوں کی صنعت کی بحالی کے لیے چین، ترکی، مصر، مراکش اور امریکا کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے۔