پاکستان کا پہلا ویسٹ سیگریگیشن، ٹریٹمنٹ اینڈ ڈسپوزل پلانٹ….تحریر:محمد اویس ضیاء
دور حاضر میں جہاں دنیا میں نت نئی ایجادات سے لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنایا جارہا ہے وہیں پاکستان میں بھی جدید ماحول دوست ترقیاتی منصوبوں کی شکل میں کئی اقدامات کیے جارہے ہیں۔اسی سلسلے میں حکومت کی جانب سے ایک احسن قدم اُٹھایا گیا ہے جس سے ماحول کی حفاظت اور قابل استعمال مواد کی دوبارہ سے تخلیق ممکن ہوپائے گی۔ پنجاب کے ایک زررعی شہرساہیوال میں تقریباً 25 ایکڑ سے زائد رقبے پر بننے والا پہلا ویسٹ سیگریگیشن، ٹریٹمنٹ اینڈ ڈسپوزل پلانٹ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا منصوبہ ہے جس میں مختلف اقسام کے ریسائیکل ایبل وسائل کو کوڑے کرکٹ سے الگ کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔
ساہیوال شہر سے روزانہ کی بنیاد پر 35 سے 40 ٹن کوڑا اس پلانٹ پر لایا جاتا ہے جس میں مختلف اقسام کے مواد کی وسیع مقدار موجود ہوتی ہے۔ کوڑے کرکٹ میں شامل نامیاتی کھاد، پلاسٹک، دھاتیں، کپڑوں کی باقیات، ہڈیاں، پلاسٹک بیگز،نان بائیوڈیگریڈ ایبل بیگز اور بال وغیرہ،وہ چند چیدہ چیدہ اشیاء ہیں جنھیں ماہرین کی نگرانی میں دوبار ہ سے قابل استعمال بنانے کیلئے اس پلانٹ پر ٹریٹ کیا جاتا ہے۔
نامیاتی کھاد: نامیاتی کھاد میں نائٹروجن کی خاص مقدار شامل ہوتی ہے جو پودوں کی صحت اور پھلوں کی زیادہ سے زیادہ پیداوار میں مدد فراہم کرتی ہے اور یہی عنصر توانا پھول، پھل اور بیجوں کی تشکیل میں بھی اہم کرادار ادا کرتا ہے۔ ساہیوال میں بننے والی یہ آرگینک کمپوسٹ حکومتی تصدیق شدہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق25 فیصد درکار نامیاتی مرکبات میں 30 فیصد، 100 میں سے 60 درکار کیٹائن ایکسچینج کپیسٹی میں 71 اور1:20 سے کم درکار کاربن تا نائٹروجن کے تناسب میں 1:12 کے نتائج کی بنیاد پر پاکستان میں بنائی جانے والی سب سے زیادہ مفید اور قدرتی اجزاء سے بھرپور کھاد میں شمار ہوتی ہے۔
پلاسٹک: دستیاب ویسٹ میں سے پلاسٹک کی باقیات کوماحول دوست ترقیاتی سسٹم میں شامل کرنے کیلئے اسے بھی کوڑے کرکٹ سے الگ کیا جاتا ہے۔
دھاتیں: دھاتوں کی مختلف اقسام اور ان کی باقیات کو چھانٹ کر مختلف صنعتی و تجارتی استعمال اوراسے دوبارہ سے قابل استعمال بنانے کیلئے بھی کوڑے سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔
کپڑوں کی باقیات: ٹیکسٹائل انڈسٹری سے جڑی ہوئی بے شمار چیزیں بھی روزمرہ کے ویسٹ میں شامل ہوتی ہیں جنھیں کچرے سے الگ کر کے متعلقہ شعبے یا کپڑوں کی باقیات کو دوبارہ سے استعمال کرنے والے ادارواں کو فراہم کیا جاتا ہے جو کہ ان سے مفید اشیاء بنا تے ہیں۔
ہڈیاں: اکثر اوقات موصول ہونے والے کوڑے میں گائے، بھینس اور دیگر جانور وں کی ہڈیا ں اور باقیات بھی موجود ہوتی ہیں جنھیں قابل استعمال بنانے کیلئے کوڑے کے بڑے ڈھیر سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔
بال:گھریلو ویسٹ میں شامل بال بھی بڑی مقدار میں ریسائیکل کیے جاتے ہیں۔ ساہیوال ویسٹ سیگریگیشن،ٹریٹمنٹ اینڈ ڈسپوزل پلانٹ پر بالوں کو بھی جداجداکیا جاتا ہے تاکہ اسے دوبارہ سے قابل استعمال بنایا جاسکے۔
شیشہ: STD ساہیوال میں آنیوالے کوڑے میں شیشے کی بھی خاطر خواہ مقدار موجود ہوتی ہے۔ اسے بھی کارآمد بنانے کیلئے دیگر اشیاء سے الگ کیا جاتا ہے۔
کاغذ/گتا: روز مرہ کے کمرشل اور گھریلو ویسٹ میں ردی،کاغذ، گتا اور اس سے ملتی جلتی اشیاء کی بہتات پائی جاتی ہے جن کا بہتر طریقے سے دوبار ہ استعمال کئی انڈسٹریز کی بقاء کا باعث بنتا ہے۔
حکومتی سطح پر کیے جانے والے اس قسم کے ماحول دوست اقدامات سے ہر طبقہ مستفید ہوتا ہے۔ مختلف انڈسڑیز اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ اجتماعی طورپر بھی اس کے دوررس مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں۔یہ پلانٹ ماحولیاتی حفاظت کے نقطہ نظر سے بھی ایک اہم سنگ میل ہے جہاں ”Controlled Environment“ میں ریسائیکل ایبلز کو دوبارہ سے قابل استعمال بنانے کیلئے کوڑے کرکٹ سے الگ کیا جاتا ہے۔مستقبل میں کچرے سے نکلے ہوئے ریسائیکل ایبلز کا باقاعدہ استعمال اس منصوبے کو نہایت منافع بخش بنائے گا جوکہ اقتصادی عمل میں بڑھوتری لانے کا موجب بنے گا۔پلاسٹک اور دیگر خطرناک مواد کو جلانے سے جہاں سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے کئی عناصر جنم لیتے تھے، وہیں اب ساہیوال STD میں ایسے مواد کو کوڑے سے الگ کر کے ناصرف مفید اور کارآمد اشیاء بنائی جائیں گی بلکہ اسے نظر آتش ہونے سے بھی بچایا جائے گا جوکہ انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر ثابت ہوسکتا تھا۔
اس پلانٹ میں کچن ویسٹ اور دستیاب گرین ویسٹ سے تیار ہونے والی ماحول دوست قدرتی (نامیاتی) کھاد ناصرف زرعی ترقی کیلئے بہت اہم ہے بلکہ اس کی کوالٹی میں مزید بہتری لانے کیلئے اس کی جامع تحقیقات کے بھی کئی در وا کیے جارہے ہیں۔
حکومتی سطح پر اس طرح کے پائلٹ پراجیکٹس کا قیام اور پھر ا ن کی مکمل سرپرستی کرنے سے اس معاملے میں ارباب اختیار کی سنجیدگی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ساہیوال ویسٹ سیگریگیشن، ٹریٹمنٹ اینڈ ڈسپوزل پلانٹ کی کامیابی کے بعد ملک بھر کے کئی شہروں میں بھی اس سے مماثل پلانٹس لگانے کا سلسلہ شروع کیے جانے کی امید کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا اور اہم منصوبہ بلاشبہ وہ راہنما اصول وضع کرے گا جس سے نا صرف سالڈ ویسٹ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائے جانے کے مسائل میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی بلکہ مستقبل میں ریسائیکل ایبلز (دوبارہ سے قابل استعمال مواد) کا مفید اور بامقصد استعمال بھی یقینی بنایا جائے گا۔
محمد اویس ضیاء