ایک اندھے سیاسی کارکن سے ملاقات کا احوال ۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر راز محمد
جیسا کہ آپ سب کو پتا ہیں کہ آٹھ فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔ عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے باقاعدہ طور پر انتخابی مہم کا آغاز کر رکھا ہے الیکشن مہم میں امیدواروں کے ساتھ ان کے سیاسی کارکنان بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہیں کہ کس طرح اپنے امیدوار کو الیکشن میں کامیاب کروائے ۔مگر دوسری جانب یہی امیدواران جن کے لئے سیاسی کارکنان دن رات انتخابی مہم چلا رہے ہوتے ہیں انہیں امیدواروں نے باقاعدہ طور لوٹنا شروع کردیا ہے ۔ گزشتہ شب ایک فیس بکی دوست نے میسنجر پہ میسج کیا اور کہا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا جی ضرور ملاقات کریں گے آپ صرف جگہ کا بتائے بہر حال أس نے کہا کہ کل میں فلاں جگہ پر آپ کا انتظار کروں گا ۔ جب صبح میں ملاقات کرنے پہنچ گیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ مجھ سے کیوں ملاقات کرنا چاہتے تھے حالانکہ نہ آپ مجھے جانتے ہیں اور نہ میں آپ کو جانتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ مجھے لگا کہ آپ ایک سیاسی جماعت کے لئے سوشل میڈیا پر زبردست کام کررہے ہیں اور آپ کو لوگ کومنٹ سیکشن میں باقاعدہ گالیاں بھی دیتے اور آپ أن کو جواب بھی نہیں دیتے اس لئے میں نے سوچا کہ یہ بندہ آپ کی صیح رہنمائی کر سکتا ہے ۔
ملاقات میں ضلع لوئر وزیرستان سمیت ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ دوران گفتگو یہ سیاسی کارکن انتہائی شریف النفس اور معصوم لگ رہا تھا بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کو سیاست بارے کچھ پتا نہیں لیکن میں خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا کہ کب ان کے منہ سے وہ چیز باہر نکلے گا جن کے لئے مجھے بلایا گیا ہے ۔
بالآخر وہ گھڑی آگئی جس کا میں بے صبری سے انتظار کررہا تھا، سیاسی کارکن نے مجھے کہا کہ میں آپ سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا جی ضرور کریں انہوں نے کہا کہ فلاں جماعت کا فلاں امیدوار مجھے کہہ رہا ہے کہ آپ مجھے تین بار چائے کا پروگرام بنائے اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ آپ مجھے تین لاکھ روپے قرضہ بھی دے دیں تاکہ میں آپ کی پارٹی کی قیادت سے ملاقات کرواؤ اور یہ بھی کہا کہ آپ کے تین لاکھ روپے قرضہ سمیت چائے پروگرام کا خرچہ ایم پی اے بننے کے بعد دوں گا ۔ اب میں کیا کروں کیونکہ میں نے تو اس خوشی میں پارٹی لیڈرشپ کیلئے سات ہزار پہ ایک ٹوپی بھی لے لیا ہے تاکہ ملاقات کے وقت میں اپنے لیڈر کو یہ ٹوپی پہنا دو۔ جب میں نے سیاسی کارکن کی یہ باتیں سن لیئے تو میں کافی پریشان ہوا کہ ہمارا آج کل کا نوجوان نسل کتنا ناسمجھ اور ناخبر رہ گیا ہے کہ ان کو یہ تک پتا نہیں کہ جس امیدوار نے مجھے جو کچھ کہا کیا ان کی اتنی اوقات ہے کہ وہ پارٹی لیڈرشپ سے میری ملاقات کروائے کہ نہیں بلکہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ کیا وہ ایم پی اے بن پائے گے یا نہیں ۔ خیر اس چیز کا شکار صرف وزیرستان میں بسنے لوگ نہیں ہیں بلکہ پورا پاکستان اس چیز کا شکار ہے ۔لہزا میں نے ان سے کہا کہ آپ ایک غریب سیاسی کارکن ہے آپ ان چیزوں کے پیچھے مت پڑھیئے اور اپنے کاروبار پہ توجہ دیں ۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ جس امیدوار نے آپ کو یہ سب کچھ کہا ہے وہ آج تک ٹانک سے آگے نہیں گیا ہے تو پھر وہ آپ کی ملاقات پارٹی لیڈر شپ سے کیسے کروائے گا بہرحال میں نے اپنی طرف سے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی باقی وہ جانے ان کا کام جانے ۔لہزا ایک سیاسی کارکن ہونے کے ناطے میں وزیرستان میں بسنے والے لوگوں سے ایک بات کہنا چاہوں گا کہ میں پچھلے آٹھ سال سے ایک سیاسی جماعت سے وابستہ رہا ہوں اس سیاسی جماعت کے لئے میں دن رات کام کرتا رہا ہوں اور اپنے جیب سے پیسے بھی خرچ کرتا رہا ہوں ان سب کے باوجود پارٹی نے آج تک نقصان کے علاوہ مجھے کچھ نہیں دیا ہے ۔ لیکن یاد رکھے جس طرح سیاسی لوگ ہمیں ایک مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں أسی طرح میں بھی پارٹی کو ایک مقصد کے لئے سپورٹ کرتا رہا ہوں ۔ ایسا نہیں کہ میں ایک نظریاتی ورکر نہیں ہوں ضرور ہوں لیکن جب پارٹی مجھے ایک مقصد کے لئے استعمال کررہا ہوتا ہے تو میں کیوں نہیں ؟
چونکہ آپ سب کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ نے جس پارٹی یا امیدوار کو سپورٹ کرنا ہے سپورٹ کر یں لیکن سپورٹ کرنے سے پہلے ان کے ماضی پہ نظر ضرور دوڑائیں کہ آج تک اس سیاسی جماعت نے یا امیدوار نے ملکی سطح پہ یا علاقائی سطح پہ کچھ کیا ہے کہ نہیں اگر کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کی خدمات ہیں تو أن کو بھرپور طریقے سے سپورٹ کریں ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اندھے پن کا شکار نہ بنے اور ہمیشہ ایسے امیدواروں کو سپورٹ کیا کریں کہ أن کی ماضی بے داغ ہو اور أن کی علاقائی سطح پہ خدمات ہو بجائے اس کے کہ موسمی پرندے سپورٹ کریں ۔ اور دوسری بات یہ کہ سانپوں کی شکل میں آنے والے اور غریب سیاسی کارکنوں کی خون چوسنے والوں کی استقبال انڈے اور ٹماٹر سے کیا کریں تاکہ دوبارہ کوئی سیاسی کارکن ان کا شکار نہ بنے ۔